پاکستان میں روایتی اصولوں کو چیلنج کرنے اور خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے والی تحریکوں میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسی ہی ایک تحریک عورت مارچ ہے۔ جو ہر سال خواتین کے عالمی دن پر منعقد کی جاتی ہے۔
جس سے ملک میں تنازعہ اور گفتگو جنم لیتے ہیں ۔
پاکستان میں حقوق نسواں کو اکثر غلط سمجھا اور غلط طریقے سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی تناظر میں حقوق نسواں کا تعلق طویل عرصے سے مغربی نظریات سے رہا ہے، اور اکثر منفی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
عورت مارچ کا بنیادی مقصد حقوق نسواں سے متعلق تک تصورات اور غلط فہمیوں کو چیلنج کرنا ہے۔
عورت مارچ کے منتظمین کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس میں گھریلو تشدد ،غیرت کے نام پہ قتل اور تیزاب گردی جیسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ خواتین کواپنی روز مرہ کی زندگی میں امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد جسمانی اور جنسی استحصال کے واقعات بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔
مارچ کے دوران دکھائے گئے پوسٹرز اور پلے کارڈز میں تولیدی صحت اور ماہواری سے لے کر غیر اخلاقی مواد کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مسائل پر توجہ دی گئی ہے۔
ایسے پوسٹرز لوگوں کے ذہنوں کو منفی اثرات پیدا کرتے ہیں اور اس ان پوسٹرز کا کوئی تعلق خواتین کی حفاظت اور خود مختاری سے نہیں ہے۔ یہ پوسٹرز محض فحش گفتگو پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
مزید براں،پاکستان میں خواتین کے لیے معاشی مواقع محدود ہیں، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں خواتین کے لیبر فورس میں شرکت کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ، جہاں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین میں سے صرف 22 فیصد لیبر فورس میں حصہ لے رہی ہیں۔ اپنے جرات مندانہ اورغیر معذرت خواهانه انداز کے ذریعے عورت مارچ پاکستان میں
حقوق نسواں کے بارے میں تصورات کو نئی شکل دے رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ غلط منفی اثرات منفی پوسٹرز کے ذریعے پھیلائے جائیں حقوق نسواں کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔