(اسلام آباد) جمعہ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سینکڑوں خواتین نے عورتوں کے مظالم کے خلاف ریلی نکالی۔ یہ ریلی عورت مارچ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ ریلی اپنے مبینہ مغربی اثر و رسوخ کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا نشانے میں رہتی ہے۔
اسلام آباد میں عورت مارچ کی لیڈ آرگنائزر فرزانہ باری نے کہا کہ ‘ہم سڑک پر حراساں کرنے، عورتوں کو جاب سے روکنے اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کی کمی جیسے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے نکلتی ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں ہر طرح کا تشدد کا سامنا ہے پھر وہ چاہے ثقافتی، جنسی یاں جسمانی ہو۔ ہمارے مسائل جیسے چھوٹی عمر میں شادی یا سڑک پر یا کام کی جگہ پر ہراساں جیسی مشکلات سے ہم خواتین دوچار ہیں۔ پاکستان میں استثنی کا کلچر ہے یہاں پہ لوگوں کو سزا نہیں ملتی’۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق صرف 21 فیصد خواتین افرادی قوت میں شامل ہیں۔ اور دیہی علاقوں میں 20 فیصد بھی کم لڑکیاں سکینڈری سکولوں میں داخل ہیں۔
گزشتہ کے انتخابات میں صرف 266 نِشستوں میں سے صرف 12 خواتین براہ راست پارلیمان میں منتخب ہوئیں۔
پاکستانی معاشرے کا زیادہ تر حصہ “عزت” کے ضابطے کے تحت کام کرتا ہے۔ جس میں خواتین اپنے کسی مرد رشتہ دار کو پڑھا نہیں سکتی، وہ ملازمت نہیں کر سکتی اور وہ شادی کے لیے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب نہیں کر سکتی۔ اسی ضابطے کے تحت سینکڑوں خواتین ہر عزت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔
کراچی میں سب سے پہلے 2018 میں عورت مارچ شروع کیا تھا لیکن بعد میں یہ ملک کے بیشتر علاقوں میں پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رائٹ وِنگ کی اِسلامی جماعتوں کی خواتین نے بھی لاہور اور کراچی میں ریلی نکالی۔ یہ ریلیاں شائستگی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جہاں خواتین نے اِسلامی اقتدار کے تحفظ کے لیے بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔
پچھلے سالوں میں عورت مارچ کی اِنتظامیہ کو ریلی نکالنے کی اِجازت کے لیے عدالتوں میں لڑنا پڑا جبکہ ریلی میں نِکلی شریک خواتین کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی طرف سے الزام ہے کہ ریلی میں نکلی شریک خواتین کے پوسٹرز بد اِخلاقی کیے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ خواتین ویسٹرن لابی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔